Irfan khan جب اُسے معلوم ہوا کہ اسے ایک مہلک بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، تو اُس نے کہا:

 جب اُسے معلوم ہوا کہ اسے ایک مہلک بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، تو اُس نے کہا:.



"زندگی میں اچانک کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو آپ کو آگے بڑھا دیتا ہے۔ میری زندگی کے پچھلے چند سال ایسے ہی گزرے ہیں۔ مجھے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی بیماری نے جکڑ لیا ہے، لیکن میرے ارد گرد موجود لوگوں کی محبت اور حوصلے نے میرے اندر ایک نئی امید پیدا کی ہے۔"


بیماری کے بستر سے اُس نے لکھا:


"ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات درد میں ڈوب گئی ہو، ایسا درد جو اُس لمحے خدا سے بھی زیادہ بڑا محسوس ہوتا ہے۔

میں کمزور، بے بس، اور شکستہ حالت میں لندن کے ایک اسپتال پہنچا۔ وہاں معلوم ہوا کہ اسپتال کے بالکل سامنے لارڈز اسٹیڈیم ہے، میرے بچپن کے خوابوں کیا مکہ !

درد کے حصار میں، جب میں اسپتال کی گیلری میں کھڑا تھا، تو ایسا لگا جیسے موت اور زندگی کے کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔

سڑک کے ایک طرف کھیل کا میدان ہے، اور دوسری طرف اسپتال۔

ان دونوں کھیلوں میں ایک چیز مشترک ہے: غیر یقینی۔

نہ تو اسٹیڈیم میں پتہ چلتا ہے کہ اگلی گیند پر کیا ہوگا، اور نہ ہی اسپتال میں اگلی سانس کا یقین ہوتا ہے۔

ان میں سے کوئی بھی چیز فیصلہ کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، نہ اسپتال اور نہ اسٹیڈیم۔

دل نے کہا، دل کی گہرائیوں سے آواز آئی: غیر یقینی ہی یقینی ہے۔

لوگوں کی اجتماعی دعاؤں سے نکلنے والی ہر شاخ، ہر پتہ، اور ہر پھول ایک نئی دنیا سے جوڑتا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے آپ قدرت کے جھولے میں جھول رہے ہیں۔"


یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ "قصہ گو آنکھوں والا" عرفان خان تھا۔


سات جنوری 1966ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں آنکھیں کھولنے والا عرفان، جس کا بچپن ٹونک نامی ایک چھوٹے شہر میں گزرا۔ یہ شہر چھوٹا ضرور تھا، مگر عرفان کے خواب بہت بڑے تھے۔


بچپن سے ہی کہانیوں اور دیومالائی قصوں میں دلچسپی لینے والے عرفان کا رجحان فلموں کی جانب ہوا، اور فلمیںوہ بھی نصیرالدین شاہ کی ۔ 


عرفان کی کامیابیوں کے پیچھے کئی برس کی گمنامی، جدوجہد، اور ٹی وی کا مشکل سفر بھی شامل تھا۔


دیگر کئی اداکاروں کی طرح وہ بھی عظیم اداکار بننے کے خواب لیے بھارت کے نیشنل اسکول آف ڈراما پہنچا۔ 

وہاں سے وہ ممبئی آیا، لیکن ابتدائی دنوں میں اُسے معمولی کرداروں کے سوا کچھ نہ ملا۔


22 فلموں کے بعد 2003ء میں وشال بھردواج کی فلم مقبول نے عرفان کو شہرت دی اور لوگ اُسے پہچاننے لگے۔


فلمی نقاد ششی بلیگا نے لکھتے ہیں 

"یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ اتنے عرصے سے انڈسٹری میں موجود باصلاحیت عرفان خان کو ہندی فلموں میں بہت کم کام ملا، اور اس رویے پر بالی ووڈ کے کرتا دھرتا کبھی معاف نہیں کیے جا سکتے۔


لیکن بعد میں وشال بھردواج اور تگمنشو دھولیا نے سب کسر پوری کر دی۔


وشال کی مقبولیت حاصل کرنے والے عرفان تگمنشو کی فلم 'پان سنگھ تومر' میں ایک باغی/ڈاکو کے روپ میں نظر آئے۔"


جس طرح وہ فلم 'پان سنگھ تومر' میں ایک ڈاکو کے کردار میں معصومیت، نادانی، اذیت، ذلت، اور بغاوت کے احساسات کو ساتھ لے کر چلتا ہے، وہ کام صرف ایک غیر معمولی اداکار ہی کر سکتا تھا۔

اس فلم کا ایک مکالمہ بہت مشہور ہوا:


"بھیڑ میں تو باغی ہوتے ہیں، ڈاکو تو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔"


اس فلم میں شاندار اداکاری پر اُنہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔


جس انڈسٹری میں کئی اداکار اسٹار یا سپر اسٹار نظر آنے کے لیے جتن کرتے ہیں، وہاں عرفان خان اپنی دھن میں مگن نظر آتا تھا۔ جیسے اُسے کسی چیز کی پروا نہ ہو۔


اُس نے شعوری طور پر کبھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن اس کے باوجود جب بھی وہ کسی فلم کے چھوٹے سے منظر میں بھی نظر آیا، دیکھنے والوں کو حیران کر گیا۔


چاہے وشال بھردواج کی فلم 'حیدر' میں جن کا کردار ہو یا میرا نائر کی فلم 'سلام بمبئی' میں خط لکھنے والا نوجوان۔


عرفان وہ اداکار تھا جو اپنی آنکھوں سے کہانی سنانا جانتا تھا۔


شاید سندھی کے مہان کوی شیخ ایاز نے عرفان کے لیے ہی لکھا تھا 

"میں نے ایسی حسین آنکھیں کہیں نہیں دیکھیں،

کوہِ ندا کی  صدا جیسی آنکھیں،

'فنا فی الوجود' جیسی آنکھیں،

سرمد کے کلمے جیسی آنکھیں!"


اُس کے مکالموں کی ادائیگی پُراثر ہوتی تھی، اور اُس نے رومانوی کرداروں سے لے کر ڈاکو تک کے کردار اس مہارت سے ادا کیے کہ ہر کردار میں خود کو گم کر دیا۔


فلم 'لنچ باکس' میں نوازالدین صدیقی اور عرفان خان کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے:


نوازالدین: "ماں کہتی تھی کبھی کبھی غلط ٹرین بھی صحیح جگہ پہنچا دیتی ہے۔"

عرفان: "لیکن یار! تُو تو کہتا تھا میں یتیم بچہ ہوں۔"

نوازالدین: "ہاں، وہ تو ہے، لیکن یہ کہنے سے بات میں وزن آتا ہے کہ 'ماں کہتی تھی' "


فن و قابلیت کے باوجود عرفان کے پاس جو کچھ بھی تھا، اُس کے مطابق وہ بالی ووڈ کی روایتی دنیا کے تقاضے پورے نہیں کرتا تھا۔


چاہے اُس کی شکل و صورت ہو یا عام انسانوں جیسا رہن سہن، اُس میں کسی قسم کا دکھاوا نہ تھا۔ یہی بات اُسے سب سے منفرد بناتی تھی۔


زندگی مختصر ہے، اور اس مختصر زندگی میں عرفان نے بہت کچھ کرنے کی خواہش کی۔


اُس نے بالی ووڈ کو سکھایا کہ فن کو کیسے سراہا جائے۔


اُس نے آرٹ فلموں کے ذریعے اُن موضوعات کو امر کیا جو تاریخ کی دھول میں دفن ہو چکے تھے۔


وہ محبت کرنے والے دلوں کا ترجمان تھا۔


بالی ووڈ کا یہ بے چین روح گویہ ہم سے ناراض ہو کر کہیں دور چلا گیا اور اتنا دور کہ اب تو اس کی واپسی کوئی امید بھی باقی نہیں رہی،  لیکن وہ اپنے کرداروں میں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔۔۔ 


حوالاجات وکی پیڈیا، پان سنگھ تومر، حیدر، لنچ باکس، بی بی سی اردو ۔۔۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں