تان سین بیجو اور گوری. محبت اور انتقام کی ملی جلی صدیوں تک امر رہنے والی داستان حصہ1
السلام علیکم دوستو ہر زمانے میں ایسے لوگ ایسے نام پیدا
ہوتے رہے ہیں جو کچھ تو تاریخ کے پنوں پر چھپ گئے اور کچھ گمنامی کے سیاہ اندھیروں میں گم ہو گئے ان میں سے ایک نام ہمیں تان سین کا ملتا ہے جو کہ اپنے فن کا ایک شاہکار مانا جاتا تھا. جس کے فن کے چرچے دور دور تک ہر زبان زد و عام تھے اور ان کے مد ح سلطنت کے کونے کونے میں پائے جاتے تھے۔ تمام سین ایک شاہی گائک تھا اور شاہی عیش و ارام میں زندگی بسر کر رہا تھا اور اس کے احترام کا یہ عالم تھا کہ اس کے اس پاس کی ابادیوں میں کسی کو گانے اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ہاں مگر جو ان کے جیسا گا سکتا ہو تو ہی گائے گا نہیں تو کسی عام گانے والے کا گانا تان سین کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اس شاہی محل کے سامنے سے ایک قافلے کا گزر ہوا وہ ایک عام قبیلہ تھا جس کا گزر بسر گانا بجانا تھا اور وہ لوگ گانا گاتے ہوئے محل کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
اتنے میں ان پر شاہی کارندوں کی نظر پڑی شاہی کارندوں نے ان قبیلے والوں کا راستہ روک لیا اور کہنے لگے کیا تمہیں معلوم نہیں یہ استاد تان سین کا علاقہ ہے یہاں گانا گانا سخت منع ہے۔ تم جانتے نہیں کہ اس گستاخی کی تم لوگوں کو کتنی بڑی سزا مل سکتی ہے۔ یہ بات سن کر اس قبیلے کے سردار نے کہا کہ ہم فنکار لوگ ہیں اور فن کسی کی میراث نہیں ہوتی ہم کسی تان سین کو نہیں جانتے۔ یہ بات سنتے ہی شاہی کارند طیش میں اگئے اور بات بگڑ گئی اور ایک تصادم شروع ہوا جس کے نتیجے میں خانہ بدوشوں کے اس قبیلے کے سردار کی جان چلی گئی۔ اس سردار کا بیج نام کاایک بیٹا لگ بھگ 10 سال کی عمر کا تھا جس کے سامنے اس کے باپ کو قتل کر دیا گیا۔ اپنے باپ کو اپنی انکھوں کے سامنے مرتا دیکھ کر بیچ نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ وہ اپنے باپ کی موت کا بدلہ تان سین سے ضرور لے گا
باپ کی موت کا درد لیے وہ کم سن اپنے قبیلے واپس لوٹ ایا لیکن اپنے ساتھ بدلے کی اگ بھی لے کر ایا۔ ایک دن بیچ نے دیکھا کہ کچھ خیمے لگے ہوئے ہیں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی تلواریں بھی ساتھ رکھی ہیں بیچ کی نظر تلوار پر پڑی بیج وہاں سے ایک تلوار اٹھا کر بھاگ گیا خیمے والوں نے
دیکھا اور پیج کو پکڑ لیا۔ وہ پیج کو برا بھلا کہنے لگے اور کہا چور کہیں کے چوری کرتے ہو کیا چوری کے علاوہ اور بھی کچھ سیکھا ہے بیج نے کہا میں چور نہیں ہوں بلکہ ایک مہان سنگیت کار کا بیٹا ہوں اور جہاں تک میرے سیکھنے کا سوال ہے تو رام کلی گڑی کلی بیروی راگ اور ایسے بہت سے راگ سیکھے ہیں میں نے اتنے میں ایک شخص جو دور بیٹھا یہ سب ماجرا دیکھ رہا تھا پاس ایا اور کہنے لگا واہ واہ واہ کیا بات ہے مگر تم تلوار اٹھا کر کیوں بھاگ رہے تھے بیج نے کہا مجھے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینا ہے ادمی نے کہا یہ سب بری باتیں ہیں
بتاؤ تم کس سے بدلہ لینا چاہتے ہو اپنے باپ کے خون کا. بیج نے کہا کہ وہ اس سلطنت میں بہت بڑا بہت بڑا اور پھر خاموش ہو گیا۔ خیمے والوں نے کہا کہ یہ لڑکا بہت خطرناک ہے اسے گرفتار کرا دینا چاہیے جلدی سے اس ادمی نے بیج کو ڈانٹا اور کہا کہ حضور یہ تو چھوٹا سا نادان بچہ ہے اپنے غم میں یہ سب کچھ کر رہا ہے اور بلا سوچے سمجھے بول رہا ہے میں اسے سیدھی راہ لگاؤں گا اپنے ساتھ اسے اپنے گھر لے جاؤں گا۔ اور یوں وہ ادمی بیج کو اپنے ساتھ لیے اپنے گاؤں پہنچا اور بحث سے پوچھا بیٹا تم کون ہو مجھے اپنا سارا واقعہ سناؤ بیج نے بتایا میرا باپ ایک سنگیت کار تھا اور میری سنگیت کی تعلیم پوری کرانے کے لیے وین داون لی جا رہا تھا۔ ہری داس سوامی کے پاس ہری دا سوامی کا نام سنتے ہی ادمی نے حیرانی سے بولا تان سین کے گروہ ہری داس سوامی کے پاس۔ دانت سے ان کا نام سنتے ہی بیچ چلا اٹھا ادمی نے بیج کو دلاسہ دیا اور کہنے لگا کوئی بات نہیں بیٹا تمہارا باپ نہیں ہے تو کیا ہوا میں تمہیں سنگیت سکھاؤں گا اور ندی کے اس پار سے اپنے گھر کو اواز لگائی کیونکہ اس شخص کا گھر ندی کے اس پار ہوتا ہے۔ اواز سن کر کچھ دیر بعد ایک نو عمر لڑکی ناؤ لے کر اتی ہے جو اس شخص کی بیٹی ہوتی ہے۔ بیچ کو دیکھ کر وہ پوچھتی ہے بابا یہ کس کو اپنے ساتھ لے ائے ہو اور ساتھ میں نے کہا بیٹا یہ بیج ہے اور اب یہ ہمارے ساتھ رہے گا لڑکی نے کہا ہم تو اسے بیجو ہی پکاریں گے بڑے بڑے ناموں سے گاؤں والوں کا کچھ بھلا نہیں ہوتا بیجو سے کیا بھلا ہوگا یہ اب گوری کے ساتھ ناؤ کھینچے گا گوری اس لڑکی کا نام تھا۔ وقت گزرتا گیا گوری اور بیجو ساتھ ساتھ بڑے ہوتے گئے بیجو ابھی تک تان سین کا نام نہیں بھولا تھا عمر کے ساتھ ساتھ بدلے کی اگ بھی بڑھتی چلی گئی لیکن ادھر گوری کے ساتھ ساتھ گوری کی محبت بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی مگر پیجو اس بات سے بالکل انجان تھا اور بدلے کی سوچتا رہتا تھا کہ کب وہ وقت ائے گا اور کب وہ تان سین سے اپنا بدلہ لے گا۔ گوری اشاروں کناروں میں اپنی محبت کا اظہار کرتی رہتی مگر بیجو بے خبر کچھ نہ جانتا تھا لیکن گاؤں والوں نے گوری اور بیجو کی محبت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے پورا گاؤں گوری کی محبت سے واقف تھا اور اگر بے خبر کوئی تھا بھی تو وہ تھا بیجو گوری کا گھر سے نکلنا دشوار ہو گیا تھا ایک تو بدنام گاؤں والوں کے تانوں کے تیر الگ مگر محبت کے ہاتھوں مجبور گوری بیجو کے بغیر مری جا رہی تھی اور جیتی بھی تو بیجو کو دیکھ دیکھ کر اور جس کے لیے بدنام اس کو کچھ خبر بھی نہیں ادھر بیجو ریاض میں ڈوبا رہتا اور اونچے اونچے سر چھیڑتا جس کی اواز سارے گاؤں کے کانوں میں گونجتی اور گوری کے کانوں میں بھی گوری کی سہیلیاں گوری کو ستاتی اور کہتی جا گوری بیجو تجھے بلا رہا ہے گوری کہتی تمہیں بلا رہا ہوگا تم جاؤ وہ ہستی اور کہتی ہمیں تو تم مار ہی ڈالو گی اگر ہم جائیں تو جس کے لیے تم مری جا رہی ہو سچ کہتے ہیں کہ جب عورت کسی کو دل و جان سے اپنا مان لیتی ہے تو اس انسان کے دیے ہوئے دکھ بھی اسے پیارے لگتے ہیں گوری اکیلے میں سارا دن خود سے باتیں کرتے رہتی اور جب بھیجو سامنے ہوتا تو کچھ زبان سے ادا نہ کر سکتی بس بیجو کو دیکھتی رہتی۔ جب لوگ بیجو کو دیکھتے تو اپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے بیجو حیران تھا کہ اخر کار گاؤں میں چل کیا رہا ہے مجھے لے کر گیا سرگوشیاں کی جا رہی ہیں۔ اخر کار گوری کی ایک سہیلی جو گوری کے بہت قریب تھی بیجو کو کہنے لگی ارے او پیجو بے رحم دل انسان تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ گوری تمہاری محبت میں سب سے دور ہوتی جا رہی ہے اور کمزور پڑ چکی ہے اگر گوری کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار تم ہو گے دیکھنے سننے میں تو بہت سمجھدار لگتے ہو راگ سروں کا تو بہت علم رکھتے ہو گر گوری کی محبت کا راز تمہیں سنائی نہیں دیتا اس کی انکھوں میں محبت کی گائی جانے والی غزلیں تمہیں نظر نہیں اتی یہ سن کر بیجو ندی کے ساتھ واقع ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھ گیا اور گوری کا انتظار کرنے لگا۔ گوری ناؤ لے کر ندی کے کنارے اتی ہے جہاں بیجو پہلے سے موجود ہوتا ہے بیجو کو دیکھ کر گوری بے رخ ہو کر بیٹھ جاتی ہے بی جو گوری سے کہنے لگا ہمیں بھی اس بار پہنچا دو گوری ادھر ادھر بے خود ہو کر دیکھنے لگتی ہے۔ بیجو نے کہا کہ ادھر ادھر کیا ڈھونڈ رہی ہو گوری نے کہا کہ سنسار میں چاروں طرف طوفان اٹھا ہوا ہے بیجو تو تم کیا کنارہ

viry nice
جواب دیںحذف کریںviry nice
جواب دیںحذف کریںgregergergyt
جواب دیںحذف کریں