روشنی خود روشنی سے تیز رفتار پر چل سکتی ہے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کوئی بھی اطلاع جو ہم تک پہنچے گی وہ روشنی کی رفتار سے تیزی سے نہیں آ سکتیروشنی خود روشنی سے تیز رفتار پر چل سکتی ہے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کوئی بھی اطلاع جو ہم تک پہنچے گی وہ روشنی کی رفتار سے تیزی سے نہیں آ سکتی
یہ تصویر سترویں صدی کے ماہر فلکیات دان اولے رومر کی ہے جن کا تعلق ڈنمارک سے تھا. 6666
یہ وہ سائنس دان ہیں جن کی تحقیق سےیہ ثابت کیا گیا کہ روشنی کی کوئی رفتار بھی ہے.
اولے رومر سے پہلے سائنس دان یہ سمجھا کرتے تھے کہ روشنی کوئی جادوئی چیز ہے جو پلک جھپکنے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتی ہے۔ دیا جلایا اور کمرہ منور۔ سورج نکلا اور تمام عالم جگمگ جگمگ۔ لیکن اولے رومر نے سب سے پہلے تجرباتی اور مشاہداتی طور پر یہ ثابت کیا کہ روشنی کی ایک رفتار ہے۔ اج سے تقریبا ساڑھے تین سو سال پہلے بغیر کسی جدید دوربین , کیلکولیٹر یا کمپیوٹر کے اولے رومر کی تحقیق پر کیے گئے اعداد و شمار سے روشنی کی رفتار تقریبا دو لاکھ بیس ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ نکلتی ہے جو اج کی جدید ترین تحقیق سے حاصل کی گئی رفتار کا تقریبا 70 فیصد ہے۔
ائیے دیکھتے ہیں کہ اس عظیم سائنس دان کو روشنی کی رفتار کا علم کیسے ہوا۔
مشتری کا ایک بہت مشہور چاند ہے آئیو ،جو بہت تیزی سے مشتری کے گرد گردش کر رہا ہے تقریبا 40 گھنٹوں میں یہ مشتری کا ایک پورا چکر لگا لیتا ہے۔ زمین سے مشتری اور آئیو کا زاویہ کچھ اس طرح سے ہے کہ تقریبا روزانہ ایک بار یہ چاند گھومتے گھومتے مشتری کی اوٹ میں چلا جاتا ہے اور کچھ گھنٹوں بعد باہر نکل آتا ہے ۔ اس مظہر کو فلکیات کی زبان میں گرہن لگنا کہتے ہیں۔ یعنی مشتری کے چاند آئیو کو تقریبا روزانہ گہن لگتا ہے۔ اولے رومر نے آئیو کے سینکڑوں گرہن کا لگاتار مشاہدہ کیا اور ہمیشہ ان پر یہ بات عیاں ہوئی کہ گرہن کبھی جلدی جلدی اور کبھی دیر سے ہوتا ہے۔ اسی زمانے کے کچھ اور ماہر فلکیات کا اندازہ یہ تھا کہ ایسا ہماری کیلکولیشن کی غلطیوں کی وجہ سے ہے لیکن اولے رومر کے مطابق یہ ہماری کیلکولیشن کی غلطی نہیں بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ روشنی کو مشتری سے زمین پر آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جب زمین سورج کے گرد گھومتے گھومتے مشتری کی طرف جا رہی ہو تو گہن لگنا زیادہ جلدی جلدی ہوتا ہے اور جب زمین مشتری سے دور جا رہی ہو تو بالکل اس کے الٹ۔
مشہور سائنس دان گلیلیو اولے رومر سے پہلے روشنی کی رفتار معلوم کرنے کی کچھ ناکام کوششیں کر چکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یا تو روشنی کی رفتار ہے ہی نہیں یہ پلک جھپکتے میں کہیں سے بھی کہیں پہنچ سکتی ہے یا اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہم اسے کبھی کیلکولیٹ نہیں کر پائیں گے۔ اولے رومر وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے یہ بتایا کہ روشنی کی ایک محدود رفتار ہے۔ جس کی وجہ سے روشنی کو ایک مقام سے دوسرے تک جانے میں وقت لگتا ہے۔
اولے رومر کی تحقیق بھلے ان کے زمانے میں اتنی پذیرائی نہ پا سکی لیکن اس نے ہجنز اور نیوٹن پر کافی گہرے اثرات ڈالے۔ بعد میں انے والے سائنس دانوں نے روشنی کی رفتار معلوم کرنے کے کئی کامیاب تجربات کیے۔ جیسے فو کالٹ اور مائیکلسن اور مورلے۔
اج ائنسٹائن کے نظریہ اضافت کی بدولت روشنی کی رفتار کو اس کائنات کا ایک اہم اور اٹوٹ کانسٹنٹ یعنی مستقل ماننا جاتا ہے۔
روشنی کی رفتار کو لے کر پورے سوشل میڈیا پر بہت سا مواد موجود ہے جس میں اکثر و بیشتر غلط ہے۔ روشنی کی رفتار کے متعلق یہ سات باتیں سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے
ایک۔
روشنی کی رفتار اس پوری کائنات میں ہر جگہ ایک جیسی ہے یعنی روشنی کبھی بھی اس رفتار سے کم یا اس سے زیادہ پر سفر نہیں کرتی۔ اسے یونیورسل کانسٹنٹ بولا جاتا ہے۔ یہ رفتار انعکاس اور انعقاف دونوں جگہ برقرار رہتی ہے.۔ یہ 299792458 میٹر فی سیکنڈ کے برابر ہے ۔
دو۔
اس کائنات میں انفارمیشن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی ایک اوپری حد متعین ہے یعنی اس حد سے تیز انفارمیشن کبھی بھی ایک مقام سے دوسرے مقام تک نہیں جا سکتی۔ روشنی اس حد پر سفر کرتی ہے اسے عام زبان میں روشنی کی رفتار کہتے ہیں۔
تین۔
روشنی کی رفتار کسی گاڑی، بس یا راکٹ کی رفتار کی طرح نہیں ہے جسے آہستہ آہستہ تیز ہو کر کبھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی چیز آہستہ آہستہ تیز ہو کر کبھی بھی روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچ سکتی بلکہ جس چیز نے روشنی کی رفتار پر چلنا ہے اس کا جنم ہی اسی رفتار پر ہونا ہے اور اس نے ہمیشہ اسی رفتار پر محو سفر رہنا ہے۔
چار۔
اگر اپ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہائی وے پر گاڑی چلا رہے ہوں اور اپ کے پاس سے ایک بس 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہو تو اپ کو اس بس کی رفتار صرف 10 کلومیٹر فی گھنٹہ محسوس ہوگی کیونکہ اپ کی رفتار سے اس کی رفتار صرف 10 کلومیٹر فی گھنٹہ ہی تیز ہے۔ یہ اصول روشنی کی رفتار پر لاگو نہیں ہوتا۔ اگر اپ روشنی کی رفتار سے صرف ایک میٹر فی سیکنڈ کم رفتار پر کسی راکٹ میں بیٹھے جا رہے ہوں اور اپ کے پاس سے روشنی کی کوئی کرن گزر رہی ہو تو اپ کو وہ کرن ایک میٹر فی سیکنڈ محسوس نہیں ہوگی بلکہ اپ کے لیے بھی وہ روشنی اتنی ہی تیز ہوگی جتنی کسی رکے ہوئے شخص کے لیے۔ اس سے سمجھ آتی ہے کہ روشنی کی رفتار کسی عام رفتار کی طرح نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ رفتار ہے ہی نہیں۔ رفتار مختلف مشاہدہ کرنے والوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے لیکن روشنی کی رفتار اس طرح نہیں ہے۔ یہ ایک کائناتی کانسٹنٹ ویلیو ہے جو ہر جگہ اور ہمیشہ اور ہر کسی کے لیے ایک ہی رہتی ہے۔
پانچ۔
کوئی بھی مادی شے جیسے کوئی انسان کوئی گاڑی کوئی راکٹ کوئی گولی وغیرہ کبھی بھی روشنی کی رفتار پر حرکت نہیں کر سکتا چاہے جتنی مرضی سائنس ترقی کر لے ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ کوئی مادی چیز روشنی کی رفتار پر حرکت کر لے۔ مادی اشیاء ہمیشہ روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر ہی حرکت کر سکتی ہیں یہی قانون فطرت کائنات ہے۔
چھ ۔
اس کائنات میں کسی بھی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہے نہ کسی قینچی، بلیڈ کے کاغذ کاٹنے کی رفتار نہ ہی کوانٹم انٹینگلمنٹ اور نہ ہی کائناتی پھیلاؤ ۔
سات ۔
روشنی خود روشنی سے تیز رفتار پر چل سکتی ہے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ کوئی بھی اطلاع جو ہم تک پہنچے گی وہ روشنی کی رفتار سے تیزی سے نہیں آ سکتی۔







تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
Thanks for you