پہیلی

 


کل شب میرے بزنس پارٹنر دھنّی لال کا میسیج آیا کہ ظفر بھائی ، آن لائن سٹور بن چکا ہے- مرضی کا مال اٹھا لو اور مرضی کے دام پہ بیچو-


میں چپکے سے اٹھا، کمرے کی بتی بند کی- بیگم صاحبہ کو خوابِ خرگوش میں چھوڑ دوسرے کمرے میں چلا آیا جو میرا دفتر بھی ہے اور پناہ گاہ بھی- آنلائن بزنس کرنے والا بندہ بیگم سے جتنا دور رہے اتنا ہی اچھا ہے بلکہ ہر بزنس مین کو بیوی سے دس بیس فٹ فاصلہ ضرور رکھنا چاہیے-  بنیا بزنس فارمولے کے مطابق "اے سیف ڈسٹانس فرام یور وائف از ڈائریکٹلی پروپوشنل ٹو یوؤر ارننگ ... مطلب تاجر کا اپنی بیوی سے فاصلہ، اس کی کمائی کے براہ راست متناسب ہے- 


دوسرے کمرے میں آ کر لیپ ٹاپ کھولا تو یاد آیا کہ آج تو "پہیلی" دیکھنی تھی- یہ "فلم والے" بھی ناں ، نہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں- پیج پہ ایسا فلم ریویو ڈالیں گے کہ بندہ قسم کھا کے اٹھے گا کہ آج یہ فلم دیکھنی ہی دیکھنی ہے- فائدہ کیا ہے بھئی؟ وقت اور پیسے کا ضیاع-


 اب چونکہ قسم کھا بیٹھے تھے تو دیکھنا بھی ضروری تھا-


"پہیلی" 2005 کی ایک فلم ہے جو کسی راجھستانی لوک کہانی پہ بنائی گئی ہے- فلم دیکھنے کی بنیادی وجہ بھی یہی بنی کہ لوک کہانیاں ہمیں شروع سے پسند ہیں-


اچھا جی  کہانی کچھ یوں ہے کہ:


دور راجستان کے کسی صحرائی گاؤں میں  سانولی سلونی سی ایک کنواری کنیا لچھّی (رانی مکھرجی) اپنے ماپوں کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہی ہے- پھر ایک دن اس کی سگائی ہو جاتی ہے- 


اس زمانے میں بیل گاڑیوں پہ بارات آیا کرتی تھی- اسے شکرم کہا جاتا تھا اور 1869ء تک ہندوستان بھر میں شکرم کا ہی راج تھا- اس پہ رنگ برنگے خیمے تنے ہوتے تھے اور اندر گاؤ تکیے لگے ہوتے تھے- راستے میں گاہ گاہ سرائے ہوتی تھیں جہاں مسافر آرام کرتے ، کھاتے پیتے اور شکرم کے کوچوان بیل تبدیل کیا کرتے تھے- 


تو جناب لچھّی کی بارات بھی ایک دور دراز گاؤں سے آئی ہے- دولہا اس کا کشنا لعل (شاہ رخ خان) ہے جو ایک امیرکبیر بنیے بھنور لعل (انوپم کھیر ) کا بیٹا ہے- باپ بیٹا دونوں ہی دھن کے پجاری ہیں اور چمڑی پر دمڑی جو ترجیع دیتے ہیں ، چنانچہ دوران سفر بھی کشنا لعل شادی کے اخراجات ہی گنتا جا رہا ہے- دلہن جو ساتھ بیٹھی بیر کھا رہی ہے ، اس کی طرف کچھ التفات نہیں-


بارات ایک سرائے پہ جا رکتی ہے جہاں ایک بہت بڑی باولی ہے، ایک چھوٹی سی قیام گاہ  اور ایک عمر رسیدہ برگد کا پیڑ جس پہ پتلیاں لٹکی ہوئی ہیں- سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس پیڑ پہ 128 بابوں کا بسیرا ہے- دراصل اسلامک ورژن میں مسلم جنات کو بابے بھی کہا جاتا ہے- ہندو لوگ انہیں بھوت پریت کہتے ہیں-


اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ اس پیڑ کا ایک عاشق مزاج بھتنا ، لچھّی کو دیکھ کر اس پہ فدا ہو جاتا ہے- وہ کبھی کوّے کا روپ دھار کے لچھّی کے شرارے پہ بیٹ کرتا ہے تو کبھی گلہری بن کے اسے متوجہ کرتا ہے ، کبھی بلبل بن کے چہکتا ہے تو کبھی ان دیکھے قدموں کی چاپ بن جاتا ہے-


بہرحال کچھ دیر قیام کے بعد بارات اپنی راہ لیتی ہے اور بھتنا آہیں بھرتا رہ جاتا ہے-


آگے شبِ زفاف کا منظر کہ دلھن گھونگٹ لیے ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھر رہی ہے اور کشنا لعل بہی کھاتہ کھولے شادی کے آڈٹ میں مصروف ہے- صبح اس نے یہ آڈٹ رپورٹ اپنے بنیے باپ کو پیش کرنی ہے-  


آخر کار دلھن یعنی لچھّی ، کشنا سے خصوصی درخواست کرتی ہے کہ جناب عالی گھونگٹ اٹھا کر تقریب کی باقاعدہ کاروائی کا آغاز کیجیے- ناچار کشنا لعل اٹھتا ہے اور یہ عظیم فریضہ سرانجام دے کر لچھی کو سونے کی تاکید کرتا ہے ساتھ یہ بم بھی اس بیچاری کے سر پہ پھوڑتا ہے کہ صبح سویرے اسے بزنس ٹوؤر کےلیے پردیس نکلنا ہے وہ بھی صرف 5 سال کےلیے- یہ سن کر لچھّی مزید ٹھنڈی ٹھار ہو جاتی ہے-


صبح سویرے جب کشنا اپنا اونٹ سفر کےلیے تیار کرتا ہے تو لچھّی زاروقطار روتی ہے- اس پہ بڑی دیورانی اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہتی کہ شکر کرو بتا کے جا رہا ہے، میرے والا تو بتا کر بھی نہیں گیا اور آج تک لوٹا بھی نہیں- 


ہونا کشنا کا گزر اس منحوس باولی سے اور دیکھنا اس عاشق مزاج بھتنے کا یہ منظر اور ٹوہ لینا- حالات حاضرہ جان کر بھتنے کا عشق بیدار ہو جانا اور سوچنا کہ کیوں نہ وہ کشنا کی شکل اختیار کر کے اگلے پانچ سال کےلیے لچھّی کا بلاشرکت غیرے مالک بن جائے-


تو جناب یوں وہ بھوت ناتھ کشنا کی شکل اختیار کر کے اس کے گھر پہنچ جاتا ہے اور باپ بھنور لعل کے سامنے کہانی گھڑتا ہے کہ رستے میں ایک جوگی ملا تھا جس نے کہا چھوڑو فزیکل بزنس اور گھر جا کر آنلائن کام کرو- پیسہ ہی پیسہ ہے- یوں بھنور لعل کو روزانہ پانچ سونے کے سکّے دے کر وہ لچھّی کا سہاگ بن جاتا ہے-


بھوت اور لڑکی کی شادی پہ میں نے بھی ایک کہانی لکھی تھی مگر یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے- بھتنا لچھی کو صاف صاف بتا دیتا ہے کہ وہ کشنا نہیں بلکہ بھوت ہے اور اس سے سچا پیار کرتا ہے- لچھی بیچاری ہجر کی ماری اب کر بھی کیا کر سکتی ہے- ایک سسکی لے کر کہتی ہے، جانے والے کو تو روک نہ سکی، آنے والے کو کیسے روکوں؟ 


چھ ماہ بعد پہنچنا بھوجا ڈاکیے کا کشنا لعل کا خط  لے کر کہ پتا جی میں فلاں فلاں منزل پہ پہنچ گیا ہوں اور لگنا اس خط کا بھتنے کے ہاتھ- ڈاکیے کا کردار راجپال یادیو نے ادا کیا ہے تو اندازہ کر لیں کہ کیا دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا ہو گا-


بہرحال، چار سال گزر جاتے ہیں- سفر پہ نکلےکشنا لعل کے اندر کا بنیا ایک دن ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور لچھی کی یاد کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے- وہ واپس اپنے دیس آ رہا مگر  لچھّی کے ہاں تو بھتنے کے بچے کی ولادت ہونے والی ہے- 


کون جیتے گا؟ کشنا یا بھوت ناتھ- کون فیصلہ کرے گا کہ اصل کشنا کون ہے؟ کیا ہو گا لچھّی کا انجام ؟


تو دوستو ! فلم جب اس مقام پہ پہنچتی  ہے تو اپنی بنیا سوچ پہ تف کرنے کو جی کرتا ہے- بیوی سے فاصلہ؟ بھاڑ میں جائے بزنس آگ لگے دھن کو- آج کے بعد بیگم کے سامنے کبھی بزنس کی بات نہیں کریں گے- منڈیر پہ کالے کوّے کو نہیں بیٹھنے دیں گے اور گلہری کو دیوار پہ نہیں چڑھنے دیں گے- اس سے پہلے کہ وہ کسی بھوت ناتھ کی صورت میں ڈھلے، ہم خود بھتنے بن جائیں گے-


 بیوی سے ایک انچ فاصلہ آپ کو حقیقی خوشیوں سے ایک نوری سال دور کر دیتا ہے-

یہی "پہیلی" کا سبق ہے- نیز "فلم والے" بھی زیادہ برے لوگ نہیں ہیں- کبھی کبھی کوئی اچھی فلم دکھا کر ہمارا ذہنی جمود توڑتے رہتے ہیں- بھلا اس سے اچھا بھی کوئی کام ہے؟


ظفر اقبال (ظفر جی) / Film Walay فلم والے

تبصرے

مشہور اشاعتیں